Friday 5 December 2014


اُستاد ! کیا ضروری ہے؟

کیا اُستاد کی واقعی ضرورت ہے؟
  کیا اُستاد کے بغیر معاملہ آگے نہیں چل سکتا؟
کیا کتاب کافی نہیں ہے؟
کیا اُستاد یا مرشد یا پیر تبدیل کیا جا سکتا ہے؟


پہلے تین سوال تو آج کی نشست میں زیر بحث آئیں گے تاہم آخری سوال کو کسی اگلی نشست میں زیر بحث لائیں گے۔
پہلے تینوں سوال اپنی اصل میں ایک ہیں۔ جن کا مقصد یہی ہے کہ اگر کوئی اُستاد یا راہنما نہ ہو یا نہ پکڑا جائے تو کیا انسان حصول منزل میں کامیاب نہیں ہو سکتا اور کیا کتاب اُستاد کی جگہ پوری کر سکتی ہے۔
سوال بہت کمال ہے۔
اس سوال میں کمال کیا ہے؟
کمال اس میں یہ ہے کہ جس بھی فرد نے یہ سوال پوچھا یا وہ تمام لوگ جو اس سوال کو ذہن میں رکھے ہوئے ہیں یا ایسے ملتے جلتے سوال اِن کے ذہنوں میں اتھل پتھل مچا رہے ہیں تو ذرا سوچیں اِن کے ذہن میں یہ سوال جس منزل پر آ کر پیدا ہوا ہے اس پر پہنچنے میں صرف اِن کی ذاتی کاوش اور محنت ہی شامل ہے یا زندگی میں انہوں نے کسی اُستاد سے فیض پایاہے یا نہیں؟
زندگی کے ہر درجہ اور رُخ کے لیے ایک اُستاد ہوتا ہے۔ ہاں اُستاد، پیر یا مرشد سے آپ کوئی باقاعدہ یا مسند طریق ہی کو اصل مانتے ہیں ہیں تو یہ معاملہ نافہمی ہے۔

پہلے یہ سمجھیں جب اُستاد‘گرو‘پیریا مرشد کا ذکر کرتا ہوں تو اس سے مراد صرف انسان، کوئی مرد یا عورت ہی مفہوم نہیں ہوتا۔ بلکہ تیز چلتی ہوا، سر سبز درخت، رات کا سکوت، علی الصبح کی تازگی، راہ جاتا بھیک مانگتا ہوا فقیر یا فقیرنی یا حادثہ بھی آپ کو کچھ سیکھا سکتا ہے۔ یہ سبق‘ یہ راہنمائی، یہ حکمت، یہ دانش جو آپ کو ایک لمحہ میں حاصل ہو سکتی ہے سالوں کی تعلیم اور تجربہ پر بھاری ہو سکتی ہے۔ ایک لمحہ میں آپ وہ کچھ حاصل کر سکتے ہیں جو تمام تمام ترکاوش اور خواہش سے نہیں کرسکتے۔ بات سمجھنے کی ہے اُستاد یا مرشد صرف انسان نہیں ہے بلکہ ہر وہ شہ جس سے آپ کچھ حاصل کرتے ہیں وہ آپ کا اُستاد یا مرشد ہے۔

بات وہی کہ کیا آپ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا آپ استقبال کی کیفیت میں ہیں یا آپ ایک قدم پیچھے ہو کر موقع اور وقت کے گزر جانے کے انتظار میں ہیں۔
ایک بات یاد رکھیں،
فطرت سب سے بڑی اُستاد اورمرشد ہے۔
باقی سب اس کے بعد ہے۔
اللہ نے انسان کو فطرت پر پیدا کیا ہے۔
سو ایک اُستاد ایک مرشد ہمیشہ اس کے اپنے اندر بھی ہوتا ہے۔ جس کے بارے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ کبھی نہیں مرتا اور اس بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ کبھی بھی زندہ نہیں ہوتا۔ یہی ایک کشمکش ہے جو اصل مسئلہ پیدا کرتی ہے۔
اگر تو یہ بات سمجھ لی کہ اُستاد یا مرشد ایک محدود مظہریت نہیں رکھتے بلکہ اِن کا ایک وسیع تناظر ہے تو معاملہ آسان ہو گیا ہے اور سوالوں کا جواب بھی آ گیا ہے۔
اس کو ایک اور تناظر میں دیکھیں؛
آپ آج جو کچھ لکھ پڑھ، بول سوچ رہے ہیں، کیا یہ آپ نے از خود کیا ہے؟
کیا بولنا آپ نے ماں سے یا باپ سے یا کسی اور انسان سے نہیں سیکھا؟ اس کے بعد ضرور اس میں مہارت یا غیر معمولی مہارت میں آپ کا عمل دخل ہو سکتا ہے۔ لیکن اس معاملے میں آپ نے نہیں مانتے ایک اُستاد کسی نہ کسی شکل میں ہمہ وقت موجود تھا۔
کیا پڑھنا لکھا کیا آپ کو خود آ گیا؟ ہاں جس اُستاد نے آپ کو پرائمری پڑھائی تھی آپ اس سے بہت آگے نکل گئے، آپ نے پی ایچ ڈی کر لی تو کیا پرائمری کے اُستاد کی اُستادی ختم ہو گئی، بے قدری ہو گئی۔

بعض جو صرف کتاب سے سیکھنے پر یقین رکھتے ہیں وہ مکمل غلط نہیں، ہاں کجی کا شکار ہیں۔ پہلے الف بے کسی اُستاد کسی مرشد سے سیکھ لیں تاکہ ایک بنیاد بن جائے پھر اس پر عمارت بھی تعمیر ہو جائے گی۔کتاب کی ایک اہمیت بلکہ بہت بڑی اہمیت ہے۔ لیکن الہامی کتابوں کو چھوڑ کر ہر کتاب کا مصنف تو ایک انسان ہی ہوتا ہے اور پھر کتاب کوئی بھی بہترین ہو سکتی ہے۔ کمال ہو سکتی ہے‘ جامعیت کا مظہر ہو سکتی ہے۔ لیکن اس میں تین اہم باتیں ہوتی ہیں پہلی یہ صرف امر زیر بحث کے ایک خاص حصہ تک محدود ہوتی ہے اور دوسرا فرد کے ذاتی خیالات اور تجربات کتاب کا حصہ ہوتے ہیں اور تیسرا کتاب پڑھنے سے پیدا ہونے والے سوالات کا قاری کو جواب دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔

سو کتاب ایک راہنما تو ہو سکتی ہے لیکن سو فی صد ذہنی و قلبی طور پر مطمئن کردینے والی نہیں ہو سکتی۔ ایک اُستاد‘ پیر یا مرشد جس طرح سوالات کو ہی ختم کر دیتا ہے اس درجہ کو کتاب نہیں پا سکتی۔ گو دونوں راہنما ہیں لیکن اِن کی راہنمائی میں باہم پہاڑ سے زیادہ فرق ہے۔کتاب سے فائدہ اٹھانے کے لیے پہلے ایک اُستاد بہرحال چاہیے ہوتا ہے۔
اب کئی خوبصورت ذہن کے حامل سوچ رہے ہوں گے کہ اُستاد اور مرشد تو بارہا آیا، روحانیت کا ذکر تو کہیں آیا نہیں۔ تو کیا روحانیت آپ کی سوچ اور آپ کے الفاظ سے الگ کوئی چیز ہے۔
 

میں نے کہا فطرت سب سے بڑی اُستاد ہے۔ سو روحانیت تو آپ کے اندر ہر وقت ہے۔ صرف اس کے دریافت کا مسئلہ ہے، اس کے ظہور کا معاملہ ہے‘ اس کے آپ پر آشکار ہونے کا انتظار ہے۔ بات وہی ہے۔ الف بے‘ چاہے کسی علم کی ہواس کے لیے ایک دفعہ تو ایک در کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہاں اُس در سے پانے کے بعد آپ کی کاوش اور آپ کا حصہ آپ کو کیا دیتا ہے یہ ہر ایک کے لیے فرق ہے۔ ایک اُستاد کے کئی شاگرد ہوتے ہیں، لیکن سب اُس کے خلیفہ کا درجہ نہیں پاتے اور کبھی اس نظام کو آپ نے دیکھا ہو تو وہ مرید جو خلیفہ کا درجہ نہیں پاتے، امر روحانیت میںدرجہ اولیٰ بعض اوقات اُن کا ہوتا ہے جو مرشدسے دستار خلافت نہیں پاتے لیکن دستار قلب پاتے ہیں۔

بات کسی اور طرف چلی گئی، واپس در پر آتے ہوئے ختم کرتے ہیں کہ منزل کوئی بھی ہو اس تک پہنچے کے لیے ایک در ایک راہبر جس کو کوئی بھی نام دے دیں کی اہمیت سے فرار حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ در سے ملنا نہ ملنا، کم ملنا زیادہ ملنا یہ الگ بحث ہے۔ صرف کتاب ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ اللہ نے اپنی الہامی کتاب قرآن حکیم کی عملی تشریح کے لیے ایک خوبصورت راستہ اپنے پیغامبر اور نبی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں ہمارے درمیان